تحرير:- ثناءاللہ صادق تیمی
شیخ محمد عزیز شمس حفظہ اللہ کی علم دوستی اور طلبہ نوازی دیکھیے کہ دو روز قبل اپنی زیارت سے شاد کام بھی کیا اور ” دارالحدیث رحمانیہ دہلی از شیخ اسعد اعظمی حفظہ اللہ” کے ایک نسخے سے ممنون بھی کیا ۔ جزاہ اللہ خیرا و احسن الجزاء ۔
مدرسہ رحمانیہ ہمارے خیالات کا بایں طور حصہ ضرور رہا ہے کہ مختلف محفلوں میں اور ذی علم بزرگوں سے اس کی داستان سنی ہے اور اس کے محیر العقول واقعات پر اش اش کیا ہے ۔تاریخ اہل حدیث سے تھوڑی بہت دلچسپی کی وجہ سے اسلاف کی چیزیں ایسے بھی توجہ کا مرکز رہی ہیں پھر مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ پر عربی زبان میں مبسوط مقالہ لکھنے کی سعادت بھی حاصل رہی ہے ( جو کبھی اللہ نے چاہا تو ان شاءاللہ زیور طباعت سے آراستہ بھی ہوگا )اس لیے مدرسہ رحمانیہ اور اس کے مؤسسین ، اساتذہ ، اس کے فارغین ، ان کی خدمات جلیلہ اور مختصر مدت میں اس کی تابندہ تاریخ سے لگاؤ کوئی بعید بات نہیں لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ مدرسے سے متعلق معلومات کا زیادہ تر انحصار ادھر ادھر بکھری ہوئی چند تحریریں یا پھر علماء و اساتذہ کی زبانی باتیں ہی تھیں ۔ شیخ اسعد اعظمی حفظہ اللہ کی کتاب کا ذکر پہلے بھی کئی بار ہوا لیکن باضابطہ استفادہ کی توفیق اب جاکر ملی ہے ۔ شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ نے جو نسخہ مرحمت فرمایا ہے وہ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی تقدیم کے ساتھ دار ابی الطیب للنشر و التوزیع ، گوجرانوالہ سے چھپا ہے ۔
کتاب میں اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا وقیع اور پر از معلومات مقدمہ ہے ، مقدمے میں انہوں نے شیخ اسعد اعظمی صاحب کے ذریعہ مدرسے کی تاسیس سے متعلق اپنی کسی کتاب میں ایک سہو کی تصحیح کو تسلیم بھی کیا ہے اور شکریہ بھی ادا کیا ہے اور ساتھ ہی خود اسعد اعظمی صاحب سے ہوئی ایک بھول کی نشاندہی کی ہے کہ مدرسہ کے زائرین میں مولانا فضل حق خیرآبادی کی بجائے فضل حق رامپوری ہو سکتے ہیں کہ فضل حق خیرآبادی تو پہلے ہی انتقال کرچکے تھے ۔ مقدمہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے علاوہ مولانا محمد صاحب اعظمی اور شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظھما اللہ کی تاثراتی تحریریں بھی شامل ہیں اور زير نظر کتاب کو سمجھنے میں معاون ہونے کے ساتھ مصنف کی کوششوں کا اعترا ف کرتی ہیں ۔
آغاز کتاب میں مصنف نے نہایت ایمانداری اور کسر نفسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ” اس کتاب میں مدرسے کا جو تعارف کرایا گيا ہے اور جو معلومات پیش کی گئی ہیں ،وہ مستند تاریخی حوالوں او رمعتبر قلم کاروں کی رہین منت ہیں ۔ ہمارا کام بحث و جستجو ، تحقیق و تنقیح ، جمع و ترتیب اور استنتاج تک محدود ہے ” یہ اظہار نئ نسل کے لیے بہت اہم پیغام رکھتا ہے ( یا لیت قومی یشعرون ) !!
کتاب مدرسہ، سبب تاسیس ، محرکین ، بانیان مدرسہ ، اساتذہ ، طلبہ ، نظام تعلیم ، نصاب تعلیم ، نظم و نسق، فارغین اور زائرین کے تاثرات وغیرہ کا بہترین مرقع ہے ۔ مؤلف نے سلیس اور پیاری اردو میں ساری معلومات سلیقے سے جمع کردی ہے ۔ محرکین کے سلسلے میں تجزیہ و تطبیق کی کوشش بطور خاص قابل اعتناء ہے ۔ ا س سے مؤلف کی سنجیدگی اور متانت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ 1921 سے 1947 تک کی تاریخ بھی اس کے جلو میں پیش ہوگئی ہے ۔مدرسے کے عروج اور اس کی تاریخی خدمات کے ساتھ تقسیم کے ساتھ ہی یکلخت زوال کی داستان دلخراش بھی پیش کی گئی ہےالبتہ مولانا اسحاق بھٹی نے منتظم مدرسہ سیٹھ عبدالوہاب کے کراچی منتقل ہونے کے بعد مدرسہ رحمانیہ کراچی سے متعلق تفصیلات بہم پہنچاکر ایک اچھا کام کیا ہے ۔
اس پوری تفصیل میں بانیان مدرسہ کی خداترسی ، علما نوازی اور طلبہ سےمحبت عصر حاضر میں ہمارے لیے موعظت کا سامان ہیں ۔ سچ ہے کہ ستائيس سال کے اس مختصر عرصے میں اگر ایک ادارے نے اتنی بڑی خدمت انجام دی تو اس کے پیچھے اخلاص و للہیت کی وہ مضبوط قوت تھی جس کی آج بھی ہمیں بہت ضرورت ہے ۔ مؤلف نے مختلف مواقع سے آج کے نظما اور ذمہ داران کو اچھا آئینہ دکھایا ہے ۔ پھر اساتذہ کی محنت و لگن ، طلبہ میں حصول علم کی تڑپ ، منتظمین مدرسہ کی جانب سے بہترین سہولتیں اور اساتذہ کی معیاری تنحواہیں یہ سب بتلاتی ہیں کہ مدرسہ رحمانیہ مدرسہ رحمانیہ کیوں کر ثابت ہوا ۔ کتاب کے اخیر میں مدرسہ رحمانیہ کی چند تصویریں بھی شامل ہیں جو نشان عبرت بھی ہیں کہ اب یہ مدرسہ شفیق میموریل اسکول میں تبدیل ہو چکا ہے ، اس کی پوری داستان الم انگیز بھی کتاب میں موجود ہے !!۔
نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کی تفصیل بھی ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ نصاب سے آج کے مدارس کے نصاب کا موازنہ کرلیا جائے تو بہت کچھ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ سہولت پسندی کے نام پر ہمارا نصاب تعلیم اب کہاں جا پہنچا ہے اور نتیجہ اب کیسی کھیپ مدارس سے تیار ہورہی ہے ۔ساتھ ہی مختصر مدت میں ساری دنیا حاصل کرنے کی خواہمشند نئی نسل کو کتاب کا مطالعہ بتلائے گا کہ ہمارے بزرگ کیوں کر اتنے کامیاب و بامراد ہوئے ۔
کتاب پڑھتے ہوئے ایک احساس دامنگير رہا کہ لگ بھگ ہر بڑے مدرسے میں فضیلت کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مقالہ لکھنا پڑتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس عظیم درس گاہ کے اساتذہ اور فارغین پر باضابطہ کام کیا جائے بطور خاص ان پر جن پر اتنی توجہ نہ دی جاسکی اور جنہوں نے اپنے اپنے میدانوں میں بہر حال نمایاں کارنامہ انجام دیا ۔
تاریخ اہل حدیث سے بالخصوص اور تاریخ سے بالعموم دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ ، اساتذہ اور طلبہ برادری کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مؤلف کو بہتر بدلوں سے نوازے اور ہمیں کتاب سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق ارزانی کرے ۔