مقالات شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ۔۔۔۔۔کی تدوین واشاعت

برصغیر پاک و ہند کے علمی حلقوں میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف اور ژرف نگاہ محقق ہیں۔ اردو اور عربی زبان میں اب تک آپ کی متعدد تحقیقات اور مقالات منظرِ عام پر آکر حلقۂ اہلِ علم سے دادِ تحسین پا چکے ہیں۔
شیخ محترم نے گذشتہ 45 برس میں وقتاً فوقتاً جو اردو مضامین حوالہ قرطاس کیے، وہ اپنے موضوع اور مواد کی اہمیت کے پیشِ نظر انتہائی وقیع اور قیمتی ہیں۔ ان نگارشات میں جہاں ہمیں تحقیقی اسلوب اور وسعتِ مطالعہ جیسی صفات نظر آتی ہیں، وہیں ان میں محققین اور طلبائے علم کے لیے راہنمائی کا مکمل سامان بھی موجود ہے کہ کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے اس کی ترتیب کیسی ہو، معلومات کا ذریعہ کیا ہو اور مصادر و مراجع سے استفادہ کیوں کر کریں۔ پھر اظہارِ مدعا میں زبان اور منہج و اسلوب کیسا اپنائیں، کسی کتاب یا مضمون پر نقد و تبصرہ اور تجزیہ کرنے کا مفید طریق کیا ہوتا ہے؛ طلبہ و محققین کے لیے ان تمام مفید اور بنیادی سوالوں کا جواب شیخ محترم کے تحریری اسلوب میں بہ درجہ اتم نظر آتا ہے اور قارئین بہ آسانی حصولِ معلومات کے علاوہ ان نگارشات سے یہ باتیں بھی سیکھ سکتے ہیں۔
زیرِ نظر مجموعہ مقالات میں شیخ محترم کے ادب و تاریخ اور دیگر موضوعات سے متعلق زیادہ تر وہی مضامین شامل ہیں جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں، تاہم ان میں چند ایک غیر مطبوع تحریریں بھی ہیں جو قلمی شکل میں محفوظ تھیں اور ابھی تک ان کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی۔ بنا بریں ہم نے ان تمام مضامین کی علمی اہمیت اور تحقیقی افادیت کے پیشِ نظر شیخ محترم سے گزارش کی کہ ان بکھرے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو کر شائقین کے لیے استفادہ ممکن بنانا چاہیے جس پر آپ نے آمادگی کا اظہار کیا اور ان منتشر تحریروں کو خود بھی جمع کیا اور جس طریقے سے ان کا حصول ممکن تھا ہم نے بھی اپنے تئیں اس کی بھرپور کوشش کی، اور یوں ہم قارئین کے سامنے اس اولین مجموعے کے توسط سے شیخ محترم کے 45 مقالات و مضامین کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مجموعہ مقالات کی اس جلد میں شیخ محترم کے فقہی موضوعات پر لکھے ہوئے مضامین شامل نہیں ہیں۔ وہ ان شاء ﷲ جلد ہی اس مجموعے کے اگلے حصے میں پیش کیے جائیں گے، فی الحال اس جلد میں آپ کے عمومی مقالات، مختلف کتب پر علمی مقدمات، وفیات اور تنقیدی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔
یہ مجموعہ چار حصوں میں منقسم ہے:
۔(1) مقالات: اس حصے میں 13 مضامین ہیں جن میں سے کچھ تو بعض شخصیات کے سوانح اور علمی خدمات سے متعلق ہیں، جیسا کہ ’’مولانا شمس الحق عظیم آبادی؛ حیات اور خدمات‘‘، ’’مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ کی تفسیری خدمات‘‘، ’’مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی علمی خدمات اور ان کا طریقۂ تحقیق‘‘، اور “امام ابن تیمیہ اور علامہ شبلی” جیسی تحریریں ہیں، جبکہ دیگر مقالات عربی و اردو ادب سے متعلق ہیں جن میں: ’’غزالی یا غزَّالی‘‘، ’’برصغیر میں عربی زبان اور ادب کی تعلیم‘‘، ’’عربی سیکھنے والوں کے لیے چند مشورے‘‘، ’’حالی اور ابن رشیق (ایک غلط فہمی کا ازالہ)‘‘، ’’قصیدہ ’بَانَتْ سُعَادُ‘ کا استناد‘‘ اور ’’مسدسِ حالی ؔاور اس کے اثرات‘‘ شامل ہیں۔ ایسے ہی ’’عربی مدارس کے نصابِ تعلیم وغیرہ سے متعلق چند تجاویز‘‘ کے نام سے نہایت اہم مضمون بھی اسی باب کا حصہ ہے۔ ایک مضمون ’’انگلیوں پر گننے کا پرانا طریقہ‘‘ کے عنوان سے بھی ہے۔ نیز اسی حصے میں ’’ذخیرۂ حدیث کی تدوین‘‘ کے موضوع پر بھی ایک مضمون ہے جس میں تدوینِ حدیث کا تذکرہ اور محدثین کی خدمات اجاگر کی ہیں اور ترکی میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی تدوینِ حدیث کے نام پر ایک فسوں کاری کا جائزہ لیا ہے۔
۔ (2)مقدمات: اس حصے میں شیخ محترم کے وہ علمی مقدمات شامل ہیں جو آپ نے عقیدہ، حدیث، فقہ، فتاویٰ، سیرت و سوانح سے متعلق مختلف کتب پر تحریر کیے ہیں۔ ان کی تعداد بھی 13 ہے۔ شیخ محترم کے ان مقدمات و تقریظات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ آپ زیرِ بحث موضوع کا پسِ منظر، اسباب و علل، تاریخی تفصیلات اور قدیم و جدید مصادر پر یوں روشنی ڈالتے اور حقائق کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن میں راسخ ہو ہو جاتے ہیں اور قاری آپ کی طویل ترین تحریر سے بھی کسی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ جیسا کہ ’’مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ؛ حیات اور خدمات‘‘، ’’فتاویٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ‘، ’’دفاعِ صحیح بخاری‘‘، ’’زیارتِ قبر نبوی‘‘، ’’اللمحات‘‘ اور ’’تنویر العینین‘‘ وغیرہ کتب پر آپ کے مفصل و مدلل مقدمات سے عیاں ہوتا ہے۔
۔ (3)تنقید و تبصرہ: اس باب میں شیخ محترم کے 13 تنقیدی مضامین شامل ہیں جو زیادہ تر بعض کتب سے متعلق ہیں اور بعض تحریریں کچھ مضامین کے تعاقب میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں کچھ تحریریں تو انتہائی مفصل ہیں اور بعض اختصار کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔
۔ (4)وفیات: اس ضمن میں 6 مضامین مندرج ہیں جو آپ نے اپنے چار جلیل القدر اساتذہ: مولانا شمس الحق سلفی (والد مکرم)، مولانا عبدالنور (نور عظیم) ندوی، مولانا صفی الرحمان مبارک پوری، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، اور دو معاصر علماء: پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی وفات پر سپردِ قلم کیے تھے۔
امید ہے یہ علمی مجموعہ قارئین کو پسند ائے گا اور معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی ذوق کو بھی جلا بخشے گا۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس مجموعے کی اشاعت کرنے والے ادارے دار ابی الطیب گوجرانوالہ کے بانیان اور جملہ خدمت گاران کو یوں ہی توفیق سے نوازتا رہے اور ہمیں اس کے توسط سے خدمتِ دین اور دفاعِ توحید و سنت کی سعادت مرحمت فرماتا رہے۔ آمین یا رب العالمین۔
یہ کتاب بڑے سائز کے 612 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی رعایتی قیمت 800 روپے ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Open chat
1
Hi, how can I help you?